صیہونی حکومت نے شروع سے ہی کہا تھا کہ جنگ بندی کا مطلب، حزب اللہ کی تباہی اور جنوبی لبنان کو فتح کرنے کے مقاصد میں ناکامی ہے اس بناء پر اب جب صیہونی حکومت نے جنگ بندی قبول کی ہے تو یہ اس کی واضح شکست ہی ہے۔ گزشتہ ایک برسوں کے دوران اسرائيل کو کبھی بھی ہھتیاروں کی کمی کے مسئلے کا سامنا نہيں کرنا پڑا کیونکہ امریکہ اس کے ساتھ رہا اور اس سلسلے میں اس کی ہر ضرورت پوری کی جبکہ دوسری طرف حزب اللہ کے پاس بھاری ہتھیاروں کی شدید قلت تھی تو اگر ہم جنگ بندی کو اسلحہ جاتی تیاری کا موقع سمجھیں تو یہ جنگ بندی حزب اللہ کے زیادہ فائدے میں ہے۔
صیہونی حکومت معاہدوں میں قابل بھروسہ فریق نہیں ہے اور اس نے 2006 کے معاہدے کی 30,000 سے زائد مرتبہ خلاف ورزی کی ہے لیکن حزب اللہ اپنے دشمن کو اچھی طرح سے پہچانتی ہے، اس لیے وہ آنے والے دنوں میں آنکھیں کھول کر اور ٹرگر پر انگلیاں رکھ کر انتظار کرے گی ۔ان حالات میں ، اس خیال مسترد نہیں کیا جانا چاہیے کہ مزاحمتی محاذ ، ، جنوبی لبنان میں عارضی جنگ بندی کو غزہ میں جنگ بندی پر عمل در آمد کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔
حزب اللہ کے لیے، تازہ دم ہونے اور دوبارہ توانائیوں کو مجتمع کرنے کا وقت شروع ہو چکا ہے، لیکن دوسری طرف، اسرائیل دراصل نفسیاتی اور آپریشنل کشمکش کے ایک بڑے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے فورا بعد صیہونی حکومت کی سیاسی شخصیات کی جانب سے نیتن یاہو پر کڑی اور وسیع تنقیدوں کا سلسلہ اور متعدد سروے مقبوضہ علاقوں کے باشندوں وں میں غم و غصے اور ناکامی کے احساس کی نشاندہی کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ